Poet: علی مزمل
By:Darwaish_writes
نہ ماہرو نہ کسی ماہتاب سے ہوئی تھی
ہمیں تو پہلی محبت کتاب سے ہوئی تھی
فریب کل ہے زمیں اور نمونہ اضداد
کہ ابتدا ہی گناہ و ثواب سے ہوئی تھی
بس ایک شب کی کہانی نہیں کہ بھول سکیں
ہر ایک شب ہی مماثل عتاب سے ہوئی تھی
وجود چشم تھا ٹھہرے سمندروں کی مثال
نمود حالت دل اک حباب سے ہوئی تھی
جزائے عشق حقیقی رہی طلب اپنی
خطائے عشق مجازی جناب سے ہوئی تھی
اسی سے تیرہ شبی میں ہے منظروں کا وجود
وہ روشنی جو مشیت کے باب سے ہوئی تھی
وہی تو جہد مسلسل کی ابتدا تھی علیؔ
جب آشنائی قدم کی رکاب سے ہوئی تھی

No comments:
Post a Comment