Poet:عرفان صدیقی
By: Darwaish.writes
اس کی تمثال کو پانے میں زمانے لگ جائیں
ہم اگر آئینہ خانوں ہی میں جانے لگ جائیں
کیا تماشا ہے کہ جب بکنے پہ راضی ہو یہ دل
اہل بازار دکانوں کو بڑھانے لگ جائیں
پاؤں میں خاک ہی زنجیر گراں ہے کہ نہیں
پوچھنا لوگ جب اس شہر سے جانے لگ جائیں
عاشقی کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں
زخم کھایا ہے تو کیا حشر اٹھانے لگ جائیں
اور کس طرح کریں حسن خداداد کا شکر
شعر لکھنے لگیں تصویر بنانے لگ جائیں
کچھ تو ظاہر ہو کہ ہیں جشن میں شامل ہم لوگ
کچھ نہیں ہے تو چلو خاک اڑانے لگ جائیں

No comments:
Post a Comment