Poet:تمیزالدین تمیز دہلویBy:DARWAISH۔WRITES
سلسلہ تو کر قاصد اس تلک رسائی کا
دکھ سہا نہیں جاتا یار کی جدائی کا
جب ذرا مہک آئی شاخ میں لچک آئی
باغباں کو دھیان آیا باغ کی صفائی کا
فربہ تھا توانا تھا تیرا جانا مانا تھا
جس پہ تو ہوا شیدا لونڈا ہے قصائی کا
سر پہ پیر رکھتا ہے مجھ سے بیر رکھتا ہے
میں نے کب کیا دعویٰ تجھ سے آشنائی کا
دوستوں میں ٹھن جاتی تھی یہ اس کی نادانی
دشمنوں کے ہاتھ آتا موقع جگ ہنسائی کا
ہر کوئی پریشاں ہے آسماں سے نالاں ہے
ہر کسی کو شکوہ ہے اس کی کج ادائی کا
یہ عجیب شیوہ ہے دوستوں کا شکوہ ہے
ہر کسی کو دعویٰ ہے اپنی پارسائی کا
اے تمیز بس بھی کر اس قدر نہ مر اس پر
کیوں ہے شوقؔ چرایا تجھ کو جبہ سائی

No comments:
Post a Comment